ھزارہ یونیورسٹی

(Hazara University) ھزارہ یونیورسٹی ۔ ارباب اختیار ات کی توجہ کی منتظر

تحریر = پروفیسر محمد صادق

تعلیم انسانوں کی قسمت بدل دیتی ہے۔تعلیم روشنی کا مینار اور ذندگی کی راہوں کو اجاگر کرنے والی وہ قوت ہے جسکا نعم البدل کچھ نہیں ہو سکتا۔تاریخ کے دریچے سے جھانکا جائے تو آج کی ترقی یافتہ قومیں ماضی قریب میں اپنی درسگاہوں کو بڑھانے اور ترقی دینے میں ہمہ تن مصروف رہی ہیں۔جبکہ دوسری طرف تاج محل اور دوسری یا دگاریں بنائی جاتی ہیں۔یہی طرز عمل قوموں کے عروج وذوال کی تاریخ رقم کرتا ہے۔ پاکستان میں یونیورسٹی سطح ابھی چند سالوں میں عام اور ترقی کی طرف گامزن ہوئی ہے۔بیشمار مسائل ہماری قومی ذندگی میں پھن پھیلائے سر اٹھائے ہماری بے بسی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ یوں تو تعلیم کا پھیلاؤ ہو رہا ہے مگر اسکا کوئی معیار بھی ہے کہ نہیں اسکی فکر کم کم ہی ہے۔ڈگریاں باٹنے والی یونیورسٹیوں کی نئی کھیپ تو تیار ہو رہی ہے مگر با مقصد تعلیم ناپید ہے۔ مغربی دنیا میں قومی مسائل کے حل کی تلاش میں یونیورسٹیوں کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کو دئیے جاتے ہیں۔ جس سے ایک طرف تحقیق کے شعبے میں تیز رفتار با مقصد ترقی ہوتی ہے اور دوسری طرف پروفیسر اور طلباء کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور منوانے میں مدد ملتی ہے۔یوں یہ تعلیمی آماجگاہیں قوم و ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ہمارے ہاں چند انگلیوں پر گنی جانے والی یونیورسٹیاں ابھی اس معیار کو نہیں چھو سکی ہیں۔مگر گائے بگائے ان چند یونیورسٹیوں میں جلنے والے چراغ جب شعلہ فگن ہوتے ہیں تو اقبال یاد آتے ہیں۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی یونیورسٹی کینوس میں نئی ابھرنے والی یونیورسٹیوں میں ھزارہ یونیورسٹی جو کہ عملی طور پر 2002 میں معرض وجود میں آئی۔ تیز رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔شروع کے چند سال تو اسکا ظاہری اور انضباتی ہار و سنگار کرنے میں گذر گئے۔سب سے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر اشرف عدیل صاحب ہوئے۔جو اپنے حصے کا کام کرنے کے بعد ڈاکٹر داؤد اعوان کو چارج دے کر الگ ہوئے۔اسکے بعد 2005 میں آنے والے ذلزلے نے اس سرزمین کو یوں جھنجھوڑا کہ اسے سنبھالنے کیلیئے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی آئے انہوں نے یونیورسٹی کو یونیورسٹی کا قیام دینے کیلئے بہت کچھ کیا۔ڈیپارٹمنٹس کی تعداد سہولتوں کے ساتھ بڑھائی۔سکالر شپ کلچر روباعمل ہوا۔بہت سے لیکچرر بیرون ملک اعلٰی تعلیم کیلئے سدہارے۔ جو اب واپسی کے سفر پر ہیں۔ یوں فیکلٹی کا حصار بڑھنے لگا۔سائنسی نمائشوں، سیمینارز وغیرہ کو بھی عام کیا گیا۔ اور یونیورسٹی یونیورسٹی لگنے لگی۔ نام سے کام کی طرف یوں یہ سفر شروع ہوا۔ کسی یونیورسٹی کو مکمل طور پر قائم ہونے میں ایک وقت درکا ر ہوتا ہے۔اور یہ عمل قدم با قدم چل کر ہی پائیہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ڈاکٹر احسان علی اپنے حصے کا اہم و نمایاں کام کر کہ ایک اور نئی یونیورسٹی بنانے مردان سدہار گے۔اسکے بعد یونیورسٹی کے چوتھے وائس چانسلر ڈاکٹر سخاوت شاہ صاحب آئے اور انہوں نے اداروں کو مضبوط کرنے کے عمل سے ابتداء کی کیونکہ پچھلے دور میں بہت سے کام شروع تو ہو چکے تھے مگر انکو انضباتی دائرے میں لانا ابھی باقی تھا۔جو کہ اداروں کو دوام بخشنے کیلئے بہت ضروری تھا۔چند ایسے کام جو معیار میں بہتری لانے کا سبب بنے۔ جنکی وجہ سے لکھے جانے والے تھیسز میں پلیچرزم کی روک تھام، معقول حد تک لائی گئی۔ اب ھزارہ یونیورسٹی کے ایم فل، پی۔ایچ۔ڈی کے تھیسیز بین اقوامی معیار کے بن چکے ہیں اور یہ اقدام معیار اعلٰی تعلیم کو بلند کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوئے۔ پرجیکٹس کی تعداد بہتر ماحول کر کے بڑھائی گئی۔ اب یونیورسٹی اپنے کئی پراجکٹس شروع کئے ہوئے ہے۔جن میں چاول کی دنیا میں سب سے ذیادہ پیداوار دینے والی قسم کو متعارف کرایا گیا۔ باٹنی اور جینیٹکس میں بہت سے ایسے پرا جیکٹس مکمل کئے گئے جو یقیناًآئندہ آنے والے دنوں میں قوم وملک کیلئے ایک سرمایہ ثابت ہوں گے۔دنیا ساری میں اور بالخصوص ہمارے اپنے ملک میں توانائی کا بڑھتا ہوا استعمال اسکی قلت میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ ملکی سطح پر مربوط انرجی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔کوئی بھی انرجی کانفرنس ہوتی ہے اس میں موجود وسائل کو پورے طور پر عمل میں لانے اور انکے استعمال میں کفائیت شعاری لانے پر بیانات داغنے پر اکتفاء کر کہ یہ فرض ادا کر دیا جاتا ہے۔مسئلے کا یہ حل ہمیں مستقبل کے آنے والے گھمبیر مسائل سے آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت ضرورت اس عمل کی ہے کہ توانائی کے غیر روائیتی ذرائع کو استعمال میں لانے کا عمل شروع کیا جائے۔ان وسائل میں ونڈ انرجی، شمسی توانائی، چھوٹے پن بنلی کے منصوبے ، بائیو گیس، بائیو ڈیزل کے الگ الگ اور مشترکہ منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں۔ ھزارہ یونیورسٹی کے فورم سے کچھ بنیادی نوعیت کے عملے منصوبے شروع کئے گئے ہیں جن میں سولر ونڈ کا ہائیپرڈ ماڈل جو 200واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے یونیورسٹی میں کام کر رہا ہے۔اسی طرح کے چند اور پراجیکٹس بھی وائس چانسلر ڈاکٹر سخاوت شاہ کی خصوصی ہدایات پر تکمیل کی طرف گامزن ہیں۔جن میں اگلے دو تین ماہ میں سولر ہائیپرڈ کار جلد ہی نمائش کیلئے پیش کی جائے گی۔انرجی کی کمی کے سا تھ ماحولیاتی آلودگی بھی ہمارے لئے چیلنج ہے اور سولر کار اسی آلودگی کو کم کرنے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔طلباء کے معیار تعلیم میں بہتری کا ایک معیار ان کے لیے قابل اعتماد امتحانانی نظام ہے۔جسکے ذریعے طلباء کی صلاحیتوں کو ٹھیک طور پر پرکھا جاتا ہے۔ یہ امتحان ہی تو ہوتا ہے جو طلباء کو محنت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اگر اس نظام میں خامیاں ہوں تو اسے پاس کرنے کے چور دروازے طلباء کو اصلی تعلیم سے کوسوں دور لے جاتے ہیں۔دوسری طرف گفر امتحانات ٹھیک ٹھاک بغیر کسی رعایت کے ہورہے ہوں تو طلباء محنت کرتے نظر آتے ہیں۔ ھزارہ یونیورسٹی نئی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کے سلسلے میں ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے ۔نئی تعلیمی پالیسی کے تحت بی ایس چار سالہ پروگرام کا اجراء سب کے لیے کم سے کم مدت میں دو عمل لانا ضروری ہے۔ مگر اس سمت میں ٹھوس اقدامات صرف خیبر پختون خواہ میں سیکرٹری تعلیم و ڈاریکٹر کالجز کی کاوشوں اور ھزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سخاوت کی عملے کوششوں سے ھزارہ بھر کے سرکاری کالجوں میں ممکن ہوا۔ تمام ملک کے علاوہ خیبر پختون خواہ میں بھی ھزارہ یونیورسٹی بی ایس چار سالہ پروگرام کو لاگو کرنے میں سرفہرست ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہریپور پوسٹ گریجویٹ کالج نے سال 2011 میں بی۔اے، بی۔ایس۔ سی پرانے پروگراموں میں داخلہ دینے کی بجائے صرف بی ایس چار سالہ پروگرام میں داخلے دیے۔اور یہ بات تب ہے ممکن ہوسکی کہ ھزارہ یونیورسٹی نے اس ضمن میں بھرپور تعاون کیا اور مکمل رہنمائی کی۔مستقبل قریب میں ھزارہ یونیورسٹی وائس چانسلر ڈاکٹر سخاوت شاہ کی ھدایت پر ایک ورکشاپ منعقد کرے گی۔جس میں سسٹم کو مزید اسطوار کرنے کی تدابیر پر غور و فکر کیا جائیگا۔ اور ساتھ ہی اس بات پر خصوصی غور کیا جائیگا کہ بی۔ایس چارسالہ پروگرام کے دوران دو سالہ کورس مکمل کرنے والے طلباء و طلبات کو ایسوسی ایٹ ڈگری دی جائے جو پرانی بی۔اے، بی ایس سی ڈگری کے مساوی ہو گی۔ یو ں طلباء کا یہ خدشہ بھی دور ہو جائیگا کہ ڈ گری چار سالہ بعد میں ہی ملے گی۔ اس اقدام سے بی۔ایس چار سالہ پروگرام پر عمل درآمد میں مزید آ سانیاں پید ا ہو ں۔اور یوں طلباء اس پروگرام سے نالاں ہونے کے بجائے اسکی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ بی۔ایس چار سالہ پروگرام دنیا بھر میں معیار تعلیم قرار پائے ہوئے اور ہم ہیں کہ اس راہ پر چلنے سے ہچکچاتے رہے۔اب یہ عمل شروع تو ہو چکا ہے مگرحکومتی سطح پر اسکی پشت پناہی بہت ضروری ہے۔وہ یونیورسٹیاں جو اسے لیٹر اینڈ سپرٹ میں نافذ کیے ہوئے ہیں انکی مالی مدد ہائیر ایجوکیشن کمیشن گرانٹ بڑھا کر کرے اور منسٹری آ ف ایجوکیشن خصوصی گرانٹ کی صورت میں کرے۔ ھزارہ یونیورسٹی نے اپنے کیمپس حویلیاں میں ہوا ،شمسی توانائی کا سروے ایک سالہ ڈیٹا لیکر کیا تھا۔جسے بعد میان پاکستان کونسل آف رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ایک بورڈ آف ڈاریکٹر نے موقع پر آ کر معائینہ بھی کیا تھا اور اسکا (P.C.1)جو کہ چھ کروڑ روپے کی لاگت سے 120کلوواٹ کا سولر ونڈ ہائیبرڈ انرجی پارک بنانے کیلئے تیاری کے مراحل میں تھا۔مگر اسی دوران منسٹری میں تبدیلی آ گئی اور پروگرام ٹھپ ہو گیا۔ استدعاء ہے کہ اس تعلیمی اور توانائی کے قومی نوعیت کے پرگرام کو در با عمل لانے کیلئے منسٹری آ ف سائنس اینڈ ٹینکنالوجی اسلام آباد فیصلہ فرمائے۔ اس پراجیکٹ کے مکمل ہونے پر ایک تو یونیورسٹی حویلیاں کمپس کی بجلی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی اور ساتھ ہی منسلکہ گاؤں کو بھی بجلی مل جائیگی۔ یہ پراجیکٹ شاہراہ ریشم پر ہونے کی وجہ سے عوام کو اپنی طرف متوجہ کوے گا۔ اور ساتھ ہی غیر روائیتی توانائی میں ایم ۔فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے سکالر کیلئے ایک لیبارٹری بھی ہو گی۔ خدا کرے ارباب اختیاررت اس پر متوجہ ہوں۔ اور یوں ھزارہ یونیورسٹی سے پھوٹنے والی ئی کرنیں ملکی اجھالے میں اضافے کا سبب بنیں۔
پروفیسر محمد صادق فزکس ڈیپارٹمنٹ ھزارہ یونیورسٹی مانسہرہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *