ٹی بی اور ڈاٹس طریقہ علاج
تحریر: ڈاکٹر سید مظہر علی شاہ
ٹی بی یا تپ دق ایک مہلک ،جان لیوا اور متعدی مرض ضرور ہے لیکن لاعلاج نہیں ہے۔انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ٹی بی نے یورپ،امریکہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ یہ بیماری سفاکانہ انداز میں ہمارے بچوں اور جوانوں کو ہڑپ کر رہی ہے۔دنیا بھر میں 2 ارب لوگوں میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں جبکہ ہر سال دنیا میں 6 لاکھ افراد ٹی بی کی وجہ سے لقمہ اجل اور 20 لاکھ نئے مریض بنتے ہیں پاکستان میں 6 کروڑ لوگوں میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں ہر سال 3 لاکھ نئے مریض بنتے ہیں اور60 ہزار ٹی بی کی وجہ سے مرتے ہیں ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 181افراد ٹی بی کے مریض ہوتے ہیں
ٹی بی کے مریض کے تھوکنے،کھانسے اور اور چھینکنے سے جراثیم ایک مریض سے دوسرے صحت مند افراد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ مریض کے کھانسنے اور چھینکنے سے جراثیم ہوا میں بکھر جاتے ہیں اور گھنٹوں ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ اور سانس کے ذریعے کسی صحت مند شخص کے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔پھیپھڑوں میں پہنچ کر یہ تیزی کے ساتھ خود کو بڑھاتے ہیں حتیٰ کہ تعداد میں اتنے ہو جاتے ہیں کہ خون کے ذریعے جسم میں پھیل کر کسی بھی عضو کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں ٹی بی نے پھر سے سر اٹھایا ہے۔ جس کی بڑی وجہ غیر صحت مندانہ ماحول، طبی سہولتوں کمی، ادویات تک غریب آدمی کی عدم رسائی، ٹی بی اور اس کے علاج کے متعلق عوام کی کم علمی اور علاج کے تسلسل میں رکاوٹ وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو ٹی بی کے جراثیم کو پھلنے پھولنے کیلئے نہایت سازگار حالات فراہم کرتے ہیں۔انہی باتوں کوپیش نظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت(WHO) نے1993 ء میں ٹی بی کے علاج کا پروگرام تیار کیا تھاجسے براہ راست نگرانی میں کیا جانے والا ٹی بی کے مختصر دورانیہ کے علاج کا پروگرام”DOTS” کہا جاتا ہے۔ڈاٹس”Directly Observed Treatment Short Course” اس پروگرام کے تحت ٹی بی کے مریضوں کو ٹیسٹ سے لیکر مکمل علاج تک کورس مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ ڈاٹس کے تحت علاج کی مدت 8ماہ ہے۔سب سے پہلے مریض کے بلغم کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے باوجود مرض کا پتہ نہ چلے تو سینے کے ایکسرے کئے جاتے ہیں بعد میں خون کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اگر مرض کی تشخیص ہوجائے تو مریض کو ہیلتھ ورکر یا کسی ذمہ دار شخص کی براہ راست نگرانی میں مکمل علاج تک مسلسل کورس کرایا جاتا ہے۔ مریض کو ہر دو ماہ بعد قریبی سنٹر آنا پڑتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں دوا کا باقاعدگی سے استعمال کرنا ضروری ہے۔اگر مریض کو کورس کی تکمیل سے قبل ادویات کی فراہمی نبد کرا دی جائے تو مریض کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ادویات نہ کھانے سے مریض کے اندر مرض کے خلاف مدافعت میں دوبارہ کمی واقع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کے بعد مرض کے لا علاج ہونے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈاٹس کے ذریعے اس جان لیوا مرض پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ یہ نہایت موثر ترین ،سستا اور مفت طریقہ علاج ہے۔ اس طریقہ علاج سے ٹی بی کے مریضوں کا سو فیصد علاج ممکن ہے۔ یہ طریقہ مختلف ادویات کی مزاحمت کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ڈاٹس کے ذریعے نہ صرف مرض کی روک تھام میں مدد ملی ہے بلکہ معیار زندگی بھی بلند ہوا ہے۔ اور ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔پاکستان میں اس طریقہ علاج کے سو فیصد کامیاب نتائج سامنے آئے ہیں۔ عوام میں اس طریقہ علاج کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو اس مہلک اور جان لیوا مرض سے نجات دلائی جاسکے۔